QuestionsCategory: نمازفرض نماز کے بعد دعا
Muhammad Ehsan asked 5 years ago

 ایک مسلئہ پوچھنا ہے کہ فرض نماز کے بعد بعض امام حضرات دعا بالجہر کرتے ہیں اور بعض نہیں اس بارے میں رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

فرض نماز کے بعد نماز کے حوالے سے اتنا ذہن میں رہے کہ متعدّد احادیث میں فرض نماز کے بعد دعا کی ترغیب و تعلیم دی گئی ہے اور ہاتھ اٹھانے کو دعا کے آداب میں سے شمار کیا گیا ہے۔ اور فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا حضور پاک  علیہ السلام سے عملاً بھی ثابت ہے اور بعض دعاؤں کے الفاظ  بھی ثابت  ہیں، چند دلائل آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ  وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ (سورة الم نشرح)
قال ابن عباس، وقتادة، والضحاك، ومقاتل، والكلبي: فإذا فرغت من الصلاة المكتوبة فانصب إلى ربك في الدعاء وارغب إليه في المسئلة يُعْطِكَ
(معالم التنزيل جلد7 ص220تفسیر بغوی ج4ص503؛بحوالہ فرض نمازوں کےبعداجتماعی دعا)
ترجمہ: جب آپ فرض نماز سے فارغ ہو جائیں تو دعا مانگنے میں اپنے آپ کومحنت میں ڈالیں اور سوال کرنے میں اس کی طرف رغبت کریں۔
أخرجه الطبري: 30 / 236. وزاد صاحب الدر المنثور: 8 / 551 عزوه لعبدبن حميد وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن مردويه۔
چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
1۔عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ أَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فِي كِتَابٍ إِلَى مُعَاوِيَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِكُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍقَدِيرٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَامَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ
الصحيح البخاري، بَاب الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ
2۔ عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سلم لم يقعد إلامقدار ما يقول اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت ذا الجلال والإكرام
ترجمہ:حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور پاک علیہ السلام جب سلام پھیرتے تواتنی مقدار بیٹھے رہتے تھے جتنی مقدار میں یہ دعا پڑھتے: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت ذا الجلال والإكرام
صحيح مسلم،ج1  باب إستحباب الذكر بعد الصلاة وبيان صفته
ہاتھ اٹھا کہ دعا کرنا اس پر امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے؛بَاب رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ؛ دعا میں ہاتھ اٹھانےکے متعلق یہ باب ہے اسکے بعد امام بخاری ؒ حدیث لائے ہیں  جس میں ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ:
کہ ابو موسی فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اورہاتھ اتنے اوپر تک اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی ا ور ابن عمر اور حضرت انس کی روایات بھی نقل کی ہیں۔
سیدہ امّی  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي بَشَرٌ.
(مسند احمد :رقم الحدیث: 262118)
ترجمہ: انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ اے اللہ! میں تو بشر ہوں۔
ان دلائل کی روشنی میں فرض نمازوں کے بعد دعا کا تذکرہ مفصل موجود ہے دعا کرنے والا شخص اگر منفرد ہے تو اس کو آہستہ دعا کرنی چاہیے کہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے اور دعا میں اصل آہستہ آواز سے ہی دعا کرنا ہے جیسے کہ قرآن پاک میں ہے “ادعوا ربکم تضرعوا و خیفہ” اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور آہستہ آواز میں پکارو اس لیے دعا آہستہ آواز میں ہی کرنی چاہیے لیکن اگر کوئی شخص امام ہے اور اونچی آواز میں دعا کرواتا ہے تو بھی جائز ہے کہ اس کی دعا پر مقتدیوں کا آمین قبولیت دعا کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
اس لیے جو امام جہرا دعا کرے اس پر بھی کوئی تنقید نہیں اور جو آہستہ آواز میں بلا جہر دعا کرے اس پر بھی کو تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
البتہ جہرا دعا کو ہی لازم کرنا یا آہستہ دعا کو لازم قرار دینا اور دوسری صورت کا انکار کرنا درست نہیں استحباب کے درجہ میں رکھ کر دعا کرنا دونوں صورتوں میں جائز ہے۔واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
19فروری 2019 مطابق 13جمادی الثانی 1440ھ