QuestionsCategory: نمازبیس رکعت تراویح اور روایتِ مؤطا امام مالک
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

مؤطا امام مالک کی اس روایت کا جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعت تراویح کا حکم دیا تھا تو اس کا ہم احناف کیا جواب دیتے ہیں یا اس کی کیا تاویل ہے؟

جزاک اللہ خیرا

محمد حارث

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

وعلیکم السلام
پہلے ہم وہ روایت پیش کرتے ہیں اس کے بعد ہم اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں ان شاء اللہ اس کے بعد آپ کو اس روایت کی وجہ سے کوئی اشکال پیش نہیں آئے گا وہ روایت یہ ہے:
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔
موطا امام مالک: ص98

جواب1:

یہاں چند امور قابل غور ہیں۔
امر اول:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی تراویح کے ناقل یہ راوی ہیں:
نمبر شمار
راوی
تعداد رکعت
ماخذ
1
السائب بن یزید
تفصیل آگے
۔۔۔۔
2
یزید بن رومان
23[مع الوتر]
موطا امام مالک
3
عبدالعزیز بن رفیع
20
مصنف ابن ابی شیبہ
4
ابی بن کعب
20
مسند احمد بن منیع
5
یحیی بن سعید
20
مصنف ابن ابی شیبہ
6
محمد بن کعب القرظی
20
قیام اللیل للمروزی
7
حسن بصری
20
سنن ابی داؤد
ان میں سے چھ روات تو بیس رکعت تراویح ہی روایت کرتے ہیں، رہے سائب بن یزید تو ان کی روایت کی تفصیل درج ذیل ہے:
سائب بن یزید کے تین شاگرد ہیں:
نمبر شمار
راوی
تعداد رکعت
ماخذ
1
یزید بن خصیفہ
20
السنن الکبری ٰ
2
حارث بن عبدالرحمن ابی ذہاب
23[مع الوتر]
مصنف عبدالرزاق
3
محمد بن یوسف
تفصیل آگے
۔۔۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سائب بن یزید کے تین شاگردوں میں سےیزید بن خصیفہ بیس اور حارث بن عبدالرحمن ابی ذہاب تیئس[مع الوتر] نقل کرتے ہیں ، البتہ محمد بن یوسف نے دو باتوں میں اختلاف کیا ہے ۔
1: یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمن ابی ذہاب قاریوں کی تعداد نہیں بتاتے لیکن محمد بن یوسف نے بتائی ہے کہ دو تھے؛ ابی بن کعب اور تمیم داری ۔
2: اول الذکر دو راوی تراویح بیس ہی نقل کرتے ہیں لیکن اس نے تراویح کی تعداد گیارہ، تیرہ اور اکیس نقل کی ۔
محمد بن یوسف کے شاگردوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
نمبر شمار
راوی
تعداد رکعت
ماخذ
1
امام مالک
11
موطا امام مالک
2
یحیی بن سعید القطان
11
مصنف ابن ابی شیبہ
3
عبدالعزیز بن محمد الدَّرَاوَرْدِی
11
سعید بن ابی منصور
4
محمد بن اسحاق
13
قیام اللیل للمروزی
5
داؤد بن قیس وغیرہ
21
مصنف عبدالرزاق
اس سے واضح ہوتا ہے کہ محمد بن یوسف کے پانچوں شاگردوں کے بیانات عدد وکیفیت کے لحاظ سے باہم مختلف ہیں کہ:
1: پہلے تین شاگرد گیارہ نقل کرتے ہیں اور محمد بن اسحاق تیرہ ،جبکہ پانچواں شاگرد داؤد بن قیس اکیس رکعات نقل کرتا ہے۔
2:امام مالک کی روایت میں گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم ہے عمل کا ذکر نہیں ،یحیی القطان کی روایت میں حکم کا ذکر نہیں ،عبدالعزیز بن محمد کی روایت میں گیارہ رکعت تو ہیں لیکن نہ حکم ہے اور نہ ابی بن کعب اور تمیم داری کا ذکر ۔محمد بن اسحاق کی روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے لیکن نہ حکم ہے اور نہ ابی وتمیم کا ذکر،اور داؤد بن قیس کی روایت میں حکم تو ہے لیکن گیارہ کی بجائے اکیس کا ذکر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن یوسف کی یہ روایت شدید مضطرب ہے اور اضطراب فی المتن وجہ ضعف ہوتا ہے:
والاضطراب يوجب ضعف الحديث.
تقریب النووی مع شرحہ التدریب: ص133 النوع التاسع عشر: المضطرب
لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔

جواب2:

امام مالک کا اپنا عمل اس کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیس کے قائل ہیں ۔ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں:
واختار مالک فی احد قولیہ ۔۔۔۔۔القیام بعشرین رکعۃ.
بدایۃ المجتہد: ج1ص214
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ راوی کا عمل اگر اپنی روایت کے خلاف ہو تو اس بات کی دلیل ہے کہ روایت ساقط ہے۔
المنار مع شرحہ نور الانوار: ص190
لہٰذا یہ روایت ساقط العمل ہے۔

جواب3:

اس روایت کے مرکزی راوی سائب بن یزید کا اپنا عمل اس کے خلاف ہے کیونکہ ان سے بسند صحیح مروی ہے:
عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر۔
معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: ج2ص305کتاب الصلوۃ
فائدہ:چونکہ یہ روایت تمام رواۃ کی مرویات کے خلاف تھی اس لیے علماء نے اس کے بارے میں دو موقف اختیار کیے ہیں ۔
(۱) ترجیح (۲) تطبیق
ہر ایک کے متعلق محققین کی آراء پیش کی جاتی ہیں:

ترجیح :

اس روایت (گیارہ رکعت)کو راوی کا وہم قرار دے کر مرجوح قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
ان الاغلب عندی ان قولہ احدی عشرۃ وھم
الزرقانی شرح موطا: ج1ص215
ترجمہ: میرے نزدیک غالب (راجح ) یہی ہے کہ راوی کا قول ”احدی عشرۃ“ [گیارہ رکعت]وہم ہے۔
تطبیق: بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے۔مثلاً:
1: قال العینی: لعل ھذا کان من فعل عمر اولا ثم نقلھم الی ثلاث وعشرین.
عمدۃ القاری: ج8ص246
2: قال علی القاری : وجمع بینھمابانہ وقع اولا (ای احدی عشرۃ رکعۃ فی زمان عمر)ثم استقر الامر علی العشرین فانہ المتوارث
مرقاۃ المفاتیح: ج3ص345
3:قال العلامۃ محمد بن علی النیموی: وجمع البیھقی بینھما کانوا یقومون باحدی عشرۃ ثم قاموا بعشرین واوتروا بثلاث وقدعد وا ماوقع فی زمن عمر کالاجماع.
حاشیۃ آثارالسنن ص221