QuestionsCategory: میت وجنازہنیک لوگوں کی قبر کے قریب دفن کی خواہش
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

کیا نیک لوگوں کی قبروں کے قریب قبر بنانے کی خواہش کرنا جائز ہے یا نہیں؟

برائے کرم شریعت کی روشنی میں اس کا جوان عنایت فرمائیں۔

احسان اللہ افغانی

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

نیک لوگوں کی قبروں کے قریب قبر کی خواہش رکھنے میں شرعا کوئی حرج نہیں بلکہ میت کے حق میں بہتر اور فرحت و سکون کا باعث ہے، اور احادیث مبارکہ میں اس کی ترغیب بھی ملتی ہے کہ میت کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کیا جائے ۔
چند دلائل پیش خدمت ہیں:

حدیث نمبر1:

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ادفنوا موتاكم وَسَطَ قومٍ صالحين فإن الميتَ يتأذى بجار السُّوء كما يتأذى الحىُّ بجار السوء.
حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی: ج6 ص354
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنے مردوں کو نیک صالح لوگوں کی قبور کے درمیان دفن کیا کرو، اس لیے کہ میت کو برے ہمسائیوں سے اس طرح تکلیف ہوتی ہے جس طرح زندوں کو برے ہمسائیوں سے تکلیف ہوتی ہے۔

اس حدیث کی تشریح محدثین حضرات سے…

حافظ زين الدين محمد بن تاج العارفين المناوی (متوفى1031ھ) اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
فيندب لولي الميت أن يقصد به قبور الصالحين ومدافن أهل الخير فيدفنه معهم وينزله بإزائهم ويسكنه في جوارهم تبركا وتوسلا بهم.
فیض القدیر شرح الجامع الصغیر: ج1 ص229
ترجمہ: میت کے ولی کے لیے یہ بات مستحب ہے کہ میت کو دفن کرنے کے لیے صالحین اور نیک لوگوں کی قبور کا قصد کرے اور میت کو ان کی قبور کے قریب دفن کرے تاکہ ان کی برکت اور وسیلہ حاصل کرے۔

حدیث نمبر2:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”صحيح البخاری“ میں نے ایک باب قائم کیا ہے:
”بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا“
صحیح البخاری: ج1 ص631
اس باب کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْكَ قَالَ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ (الْمَضْجِعِ) فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ.
صحیح البخاری: ج1 ص633
ترجمہ: حضرت عمرو بن میمون اَودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے (بوقتِ وصال اپنے صاحبزادے سے) فرمایا : اے عبداﷲ بن عمر! ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ مجھے میرے دونوں رفقاء کے ساتھ (روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست پیش کی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : وہ جگہ میں اپنے لیے رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں انہیں (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو) اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔
جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما واپس لوٹے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا : کیا خبر لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : اے امیر المومنین! ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے لیے اجازت دے دی ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس (متبرک و مقدس) مقام سے زیادہ میرے لے (بطور آخری آرام گاہ) کوئی جگہ اہم نہیں تھی۔ تو جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا اور سلام عرض کرنا۔ پھر عرض کرنا (آقا!) عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر مجھے اجازت مل جائے تو وہاں دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جا کر دفن کر دینا۔‘‘

اس حدیث کی تشریح محدثین حضرات سے…

صحیح البخاری کی اس روایت کی شرح میں حافظ الدنیا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله (متوفیٰ 852) لکھتے ہیں:
وَفِيهِ الْحِرْصُ عَلَى مُجَاوَرَةِ الصَّالِحِينَ فِي الْقُبُورِ طَمَعًا فِي إِصَابَةِ الرَّحْمَةِ إِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ.
فتح الباری: ج3 ص258
ترجمہ: اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہےکہ انسان کو صالحین کی قبور کے پڑوس میں اپنی قبوربنانے كا خواہشمند ہونا چاہیئے اور اس کا شوق رکھنا چاہیے اس امید ونیت کے ساتھ کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس بندے کوبهی پہنچے گی۔
شارح بخاری محقق امام محدث و فقیہ علامہ أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ855ھ) لکھتے ہیں:
ذكر مَا يُسْتَفَاد مِنْهُ: فِيهِ: الْحِرْص على مجاورة الصَّالِحين فِي الْقُبُور طَمَعا فِي إِصَابَة الرَّحْمَة إِذا نزلت عَلَيْهِم.
عمدۃ القاری: ج 8ص230
ترجمہ: اس حدیث سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو صالحین کی قبور کے پڑوس میں اپنی قبوربنانے كا خواہشمند ہونا چاہیئے اور اس کا شوق رکھنا چاہیے اس امید ونیت کے ساتھ کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس بندے کوبهی پہنچے گی۔
کتبہ: ابو محمد شبیر احمد حنفی