QuestionsCategory: مسالکآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا یا نہیں؟
احمد فکری asked 3 years ago

سوال:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا یا نہیں؟ اس بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات کیا ہیں؟ اگر سایہ ہونے پر دلائل ہیں تو وہ دے دیجیے۔ میرے ایک ساتھی نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔ اس لیے اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔ جزاک اللہ خیرا
سائل: احمد فکری

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 3 years ago

جواب:
روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا۔  استاذ محترم متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کی مرتب کردہ فائل ”صفتِ نور بشر“ سے وہ روایات مع تصحیح نقل کی جاتی ہیں:
دلیل نمبر1:
امام حاکم  ابو عبداللہ   محمد  بن  عبداللہ الحافظ(م405ھ) اپنی سند کے ساتھ  روایت کرتے  ہیں کہ   حضرت  انس  بن مالک  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  ایک رات  نماز  پڑھ رہے تھے کہ اچانک  آپ نے  اپنا ہاتھ  آگے بڑھایا، پھر پیچھے  ہٹالیا۔ ہم  نے   کہا:  یا رسول  اللہ  ہم  نے  آپ  کو اس نماز میں  ایسی  کارروائی کرتے دیکھا ہے جو آپ نے  اس  سے قبل  نہیں   کی۔ فرمایا:  ہاں بلاشبہ  مجھ پر جنت پیش  کی گئی تو میں  نے  اس میں اونچے درخت دیکھے جن کے  گچھے نیچے  کو  جھکے ہوئے تھے  تو میں  نے ارادہ کیا  کہ ان  سے کچھ  لے لوں، پس میری طرف وحی آئی  یہ کہ  پیچھے  ہٹ جا ، سو میں  پیچھے  ہٹ گیا  اور مجھ پر دوزخ  بھی پیش  کی گئی  جو میرے  اور تمہارے  درمیان تھی  یہاں تک  اس کی آگ کی روشنی میں   میں نے  اپنا اور تمہارا سایہ  دیکھا، پس میں  نے تمہیں اشارہ  کیا کہ پیچھے  ہٹ جاؤ،  سو میری طرف  وحی آئی  کہ ان   کو  ان کی جگہ پر  ٹکا  رہنے دے  کیونکہ  تو  نے  اسلام قبول  کیا اور  انہوں  نے  بھی ، تو نے ہجرت کی  اور انہوں نے بھی ، تو نے جہاد کیا  اور انہوں  نے بھی،  پس میں  تیری  ان  پر بجز  نبوت کے  اور کوئی فضیلت  نہیں  دیکھتا، پس میں  نے  اس  سے  یہ نتیجہ  نکالا کہ  میری امت  میرے بعد  فتنوں میں  مبتلا ہوگی۔
(مستدرک الحاکم: ج4 ص456 قال الحاکم و الذہبی: صحیح)
دلیل نمبر2:
حضرت عائشہ  رضی اللہ  عنہ فرماتی  ہیں کہ  آنحضرت صلی  اللہ علیہ وسلم   ایک سفر  میں تھے اور اس  سفر  میں بعض دیگر  ازواجِ مطہرات بھی آپ  کے ساتھ تھیں۔  حضرت  صفیہ رضی اللہ  عنہ  کا اونٹ  بیمار ہوگیا۔  حضرت زینب رضی ا للہ عنہا کے پاس  اپنی ضرورت  سے  زائد اونٹ تھا۔ آپ نے فرمایا  کہ صفیہ  کا اونٹ بیمار ہے   اے  زینب!  اگر اسے  اپنا فالتو اونٹ دے  دے تو   بہتر ہوگا۔  انہو ں نے کہا : کیا میں  اس  یہودیہ کو  اونٹ   دے دوں؟ ان کے  اس نامناسب جواب  سے   آپ  ناراض  ہوگئے اور  آپ نے  ذوالحجہ،  محرم  دو یاتین ماہ  حضرت زینب  رضی اللہ عنہا کے  پاس جانا ہی ترک  کردیا۔ حضرت زینب رضی اللہ  عنہا فرماتی ہیں  کہ میں   آپ سے ناامید  ہوگئی  اور  میں  نے اپنی چار پائی  وہاں سے  ہٹا دی  ، فرماتی ہیں  کہ میں   اسی حالت میں تھی  کہ اچانک  ایک دن  دوپہر  کے وقت  میں  نے آنحضرت صلی اللہ  علیہ وسلم  کا سایہ دیکھا  جو میری طرف  آرہا تھا۔
(طبقات ابن سعد: ج8 ص126)
اس حدیث  کے راوی  یہ ہیں :
(1): عفان بن مسلم  رحمہ اللہ:
آپ  صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ امام  عجلی رحمہ اللہ  ان کو ثقہ اور ثبت کہتے ہیں ، امام ابو  حاتم رحمہ اللہ ان  کو ثقہ، امام   اور متقن کہتے ہیں، علامہ  ابن سعد  رحمہ اللہ   ان کو  ثقہ،  کثیر الحدیث،   ثبت اور حجت  کہتے  ہیں ، امام ابن خراش ان کو ثقہ من خیار المسلمین اور محدث ابن قانع ان کو  ثقہ اور مامون کہتے ہیں۔  امام ابن حبان ان کو ثقات میں شمار کرتے ہیں۔  (تہذیب التہذیب: ج7 ص231 تا 234)
(2): حماد بن سلمہ رحمہ اللہ:
                علامہ ذہبی ان کو  الامام، الحافظ اور شیخ الاسلام لکھتے ہیں۔  (تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص189)
(3): ثابت بنانی رحمہ اللہ:
                یہ بھی صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔  امام نسائی اور امام عجلی ان کو ثقہ کہتے ہیں۔  علامہ ابن سعد ان کو ثقہ اور مامون کہتے ہیں۔  محدث ابن حبان ان کو ثقات میں شمار کرتے ہیں۔  (تہذیب التہذیب: ج3 ص3)
(4): شمیسہ رحمہا اللہ:
                حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مقبولۃ من الثالثۃ• (تقریب التہذیب: ص473) کہ یہ تیسرے طبقے کے راویوں میں سے ہے اور مقبول ہے اور ان پر کسی کی کوئی جرح منقول نہیں ہے۔
(5):  حضرت عائشہ  رضی اللہ  عنہا:
  غرضیکہ اس روایت  کے  سب راوی ثقہ  ہیں  اور یہ روایت  مسند  احمد  اور مجمع  الزوائد میں بھی ہیں، اس  کے  الفاظ  آخر میں یوں  ہیں:
” یعنی  جب ربیع الاول  کا مہینہ  آیا تو  آپ میرے پاس  آئے ، فرماتی ہیں  کہ جب میں  نے  آپ کا سایہ  دیکھا تو میں نے کہا: یہ سایہ تو مرد کا ہے  اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس  آتے  نہیں  تو یہ کون ہے؟!  اتنے میں  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  داخل ہوگئے۔
(مسند احمد:  ج6ص336، مجمع الزوائد:  ج4ص323)
ان دو روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
24- ربیع الاول 1442ھ/
11- نومبر2020ء