QuestionsCategory: خواتینمرد اور عورت کی نماز میں فرق
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

کیا مردوں اور عورتوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے؟ایک آدمی نے یہ پوسٹ دی ہے کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھےنما زپڑھتے ہوئے دیکھتے ہو” یعنی ہوبہو میرے طریقے کے مطابق سب عورتیں اور سب مرد نماز پڑھیں پھر بعض لوگوں کا اپنی طرف سے یہ حکم لگانا کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف اور عورتیں سجدہ کرتے وقت زمین پر کوئی اور ہیئت اختیار کریں اور مرد کوئی اور یہ دین میں مداخلت ہے یاد رکھیں تکبیر تحریمہ سے شروع کر کےالسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے تک عورتوں اور مردوں کے لیے ایک ہی ہئیت اور ایک ہی شکل کی نمازہے سب کا قیام ،رکوع ،قومہ،سجدہ،جلسہ استراحت،قعدہ اور ہر ہر مقام پرپڑھنے کی دعائیں یکساں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں بتایا” لیکن میں نے کہیں علماء سے سنامرد اور عورت کی نماز میں فرق ہےصرف فرق کا نا بتائیں بلکہ اگر فرق ہے تو دلائل بھی ساتھ تحریر فرمائیں ۔

سائلہ : ہما مجید

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

شریعت اسلامیہ میں احکام خداوندی کے مخاطب مرد و عورت دونوں ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کے احکام جس طرح مردوں لئے ہیں عورتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں لیکن عورت کی نسوانیت اور پردہ کا خیال ہر مقام پر رکھا گیا ہے۔ ان عبادات کی ادائیگی میں عورت کے لئے وہ پہلو اختیار کیا گیا ہے جس میں اسے مکمل پردہ حاصل ہو۔
ایمان کے بعد سب سے بڑی عبادت ’’نماز‘‘ ہے۔ اس کے بعض احکام مشترک ہونے کے باوجود بعض تفصیلات میں واضح فرق ملتا ہے ۔ ذیل کی احادیث اس فرق کو واضح بیان کرتی ہیں۔
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجَرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ جِئْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ ۔فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَاوَائِلَ بْنَ حُجَرٍ! اِذَاصَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حَذْوَاُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَاحِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص144 رقم الحدیث 17497،مجمع الزوائد للھییثمی ج 2ص272 باب رفع الیدین، رقم الحدیث 2594،جامع الاحادیث للسیوطی ج23 ص 439 رقم الحدیث 26377)
ترجمہ:حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو اپنے کانوں کے برابر ہاتھ اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے ۔
:2 عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَبِیْبٍ رحمہ اللہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ عَلٰی اِمْرَاَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ اِذَاسَجَدْتُّمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ اِلَی الْاَرْضِ فَاِنَّ الْمَرْاَۃَ لَیْسَتْ فِیْ ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ۔
(مراسیل ابی داؤد ص28،السنن الکبری للبیہقی ج 2ص223 باب ما یستحب للمراۃ الخ، جامع الاحادیث للسیوطی ج3 ص 233 رقم الحدیث 2110)
ترجمہ:حضرت یزید بن حبیب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے قریب سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم سجدہ کرو تو جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت کا حکم اس میں مرد کی طرح نہیں ہے ۔
:3 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ ۔۔۔۔ کَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّتَجَافُوْا فِیْ سُجُوْدِھِمْ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَخَفَّضْنَ وَکَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وََیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِی التَّشَھُّدِ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ۔
(السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ،التبویب الموضوعی للاحادیث ص2639 )
ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں ۔ مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔
:4 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا۔
(الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ،جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے ۔ اللہ تعالی اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
:5 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تُقْبَلُ صَلٰوۃُ الْحَائِضِ اِلَّا بِخِمَارٍ۔
(جامع الترمذی ج1 ص 86 باب ماجاء لا تقبل صلوٰۃ الحائض الابخمار ، سنن ابی داؤد ج1 ص101 باب المراۃ تصلی بغیر خمار)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔ ‘‘
:6 قَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ اِذَاسَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَلْتَضُمَّ فَخْذَیْھَا۔
(السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222 باب ما یستحب للمراۃالخ ،مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص504 ، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا،رقم الحدیث 2793،مصنف عبد الرزاق ج 3ص50 باب تکبیر المراۃ بیدہا الخ، رقم الحدیث 5086 )
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنی رانوں کو ملائے (یعنی خوب سمٹ کر سجدہ کرے(
:7 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلٰوۃِ الْمَرْاَۃِ فَقَالَ تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص505، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا، رقم الحدیث2794)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نماز پڑھے ۔
:8 عَنْ نَافِعٍ اَنَّ صَفِیَّہَ کَانَتْ تُصَلِّیْ وَھِیَ مُتَرَبِّعَۃٌ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص506، فی المرا ۃ کیف تجلس فی الصلوۃ،رقم الحدیث 2800)
ترجمہ: حضرت نافع رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت صفیہ رحمۃ اللہ علیھا (زوجہ ابن عمر رضی اللہ عنہ (نماز پڑھتی تو چہار زانو ہو کر بیٹھتی تھیں)۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہو گیا کہ مرد اور عورت کی نماز میں واضح فرق ہے۔باقی وہ حدیث جس کو سوال میں ذکر کیا گیا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
: وَصَلُّواكَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي
(صحیح البخاری: ج1 ص88 باب الاذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ)

جواب نمبر1:

پہلے یہ حدیث مبارکہ مکمل سن لی جائے تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔پوری حدیث یوں ہے۔
حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّواكَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ
اس حدیث مبارکہ میں سات احکامات بیان ہوئے ان کا تعلق مردوں سے ہے۔مثلاً:
صلوا ،امر کا صیغہ ہے اس سے پہلے چار امر صیغے ہیں۔1: ارجعوا ،2: فاقیموا فیہم، 3: علِّموہم ،4: مُرُوْہم
ان کا تعلق بالاتفاق مردوں سے ہے اور صلوا کے بعد دو حکم ہیں۔اذان وامامت کا ،ان کا تعلق بھی بالاتفاق مردوں سے ہے لہذا صلوا کما رائیتمونی کا تعلق بھی مردوں سے ہی ہوا نہ کہ عورتوں سے۔
اسی طرح بخاری شریف ج1ص95 باب استووا فی القراءۃ فلیومہم اکبرہم میں واضح موجود ہے۔ فعلمتوہم مروہم فلیصلوا بصلاۃ کذا فی حین کذا وصلوۃ کذا فی حین کذا ،یعنی جب تم اپنے اہل کو سکھا چکو تو ان کو حکم کرو وہ اس طرح نماز پڑھیں اور اس وقت میں پڑھیں۔

جواب نمبر2:

صلوا ، کا خطاب حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کو تھا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت وصحبت میں بیس دن تک رہے اور جلدی واپسی جانا چاہتے تھے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضابطہ کلیہ دیدیا صلوا کما رائیتمونی اصلی اس خطاب میں عورتیں کہاں سے شامل کرلیں۔

جواب نمبر3:

صلوا کا عموم غیرمقلدین کی ذاتی رائے وقیاس ہے اور غیرمقلدین کے نزدیک قیاس کرنا شیطان کا کام ہے۔