عرض یہ کرنا تھا کہ کل ایک شادی میں گئے وہاں ایک عزیز سے ملاقات ہوئی جب کھانا شروع ہوا تو میں نے کہا چلیں کھانا کھاتے ہیں تو انکا جواب تھا کہ پرہیز ہیں وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ جنکی تقریب ہے وہ بینک میں ملازمت کرتے ہیں تو میں نے کہا کہ سلامی بھی دینی ہے تو یہ سمجھ کر کھالیں کہ آپ نے اپنے پیسے سے کھانا کھایا ہے تو وہ خاموش رہے… کیا انکا یہ عمل درست ہے قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں
معاذ خورشید
جواب:
اگر تو شادی کی تقریب میں جو مال خرچ ہوا ہے وہ اس بینک کی ملازمت سے حاصل ہوا ہے تب تو اس مال سے بچنا ضروری ہے کیوں کہ بینک کی ملازمت حرام ہے اور اس ملازمت کے عوض جو مال حاصل ہو اہے وہ بھی حرام ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں
یایھا الناس کلوا ممافی الارض حلالا طیبا
سورت بقرہ ،پارہ 2،رکوع 5،آیت 168۔
اے لوگوزمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاو۔
اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل
سورت بقرہ ،پارہ 2، آیت 188۔
آپس میں ناحق طریقے سے ایک دوسری کا مال نہ کھاو۔
اور اگر بینک کی ملازمت کے علاوہ اس کا کوئی اور پیشہ بھی ہے اس سے مال حاصل ہو ا اور اس مال کوشادی کی تقریب میں لگائے بینک کا پیسہ نہ لگائے ۔تو اس کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
2۔کھانا کھالے اور بعد میں جو پیسے دیتے ہیں اس میں یہ نیت کر لے کہ میں کھانے کا عوض دے رہا ہو ں تو بھی کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔
واللہ اعلم با لصواب
دارالافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
10فروری 2019
Please login or Register to submit your answer