QuestionsCategory: اسلامی تہوارکیا اسلام میں دو ہی عیدیں ہیں؟
ANWER RAHMANI asked 5 years ago

kis hadith me likha hai ki muslim ke do hi eid hote hai. hadith ka hawala de or eid ka  lafzi  maane kya hai?
کس حدیث میں لکھا ہے کہ مسلم کی دو ہی عیدیں ہوتی ہیں؟ حدیث کا حوالہ دیں اور” عید“ کا لفظی معنی کیا ہے؟

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
آپ کے سوال کے جواب میں چند باتیں عرض ہیں:
[1]: شریعت مطہرہ میں ”عید“ سے مراد وہ دن ہے جس میں چند امور ملحوظ ہوتے ہیں۔ مثلا ً
۱: عید کے دنوں میں روزہ کا جائز نہ ہونا
۲:عیدین کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ جانا
۳: عید الفطر کے لیے صدقۃ الفطر اور عید الاضحیٰ کے لیے قربانی کا مشروع ہونا
۴: عید گاہ جانے سے قبل عید الفطر کے دن کوئی میٹھی چیز کھانا اور عید الاضحیٰ کے دن نماز سے قبل کچھ نہ کھانا
۵: عید کے دنوں میں عیدین کی نماز کا واجب ہونا
۶: عیدین کی نماز کا پہلے اور خطبہ کا بعد میں ہونا
۷: عیدین کی نماز میں چھ زائد تکبیرات کہنا
۸: عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلٰى“ اور دوسری رکعت میں ”هَلْ أَتٰكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِ“ کی تلاوت کا مستحب ہونا وغیرہ
شریعتِ مطہرہ میں عید کا یہی مفہوم ہے جس میں مذکورہ امور سر انجام دیے جاتے ہیں۔ ایسی عید شریعت مطہرہ میں صرف دو ہیں؛ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحیٰ۔ ان دو کے علاوہ شریعت میں تیسری عید نہیں ہے۔ جو شخص ان دو عیدوں کے علاوہ کسی اور عید کا قائل ہے تو وہ شرعی دلائل کے ساتھ اس عید اور اس کے متعلقہ احکام و مسائل کا ثبوت پیش کرے!!
[2]: احادیث مبارکہ میں دو ہی عیدیں بتائی گئی ہیں۔ دو احادیث ملاحظہ ہوں:
1: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ قَالَ كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحٰى․
(سنن النسائی: كتاب صلاة العيدين رقم الحدیث 1556)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل جاہلیت کے دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود (کر کےخوشی منایا ) کرتے تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے دو دن تھے جن میں تم کھیل کود کرتے تھے، اب اللہ تعالىٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحىٰ کا دن ۔
2: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتّٰى يُصَلِّيَ․
(سنن الترمذی: باب ما جاء في الأكل يوم الفطر قبل الخروج رقم الحدیث 497)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ کھا کر نماز عید کے لیے تشریف لے جاتے تھے لیکن عید الاضحیٰ کے دن جب تک نماز نہ پڑھ لیتے اس وقت تک کچھ نہ کھاتے تھے۔
ان روایات میں صرف دو عیدوں کا ذکر ہے۔ اگر تیسری ہوتی تو ضرور ذکر کی جاتی۔
نوٹ: ان دونوں روایات کو محمد امجد علی اعظمی صاحب نے اپنی کتاب ”بہار شریعت“ (حصہ چہارم ص778) میں بھی ذکر کیا ہے۔
[3]: عید کا لفظی معنی ”خوشی“ ہے لیکن اعمالِ شریعت میں لفظی معانی کو نہیں بلکہ شرعی مفہوم کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر لفظی معانی پر ہی اعمال کی بنیاد رکھ لی جائے تو شرعی اصطلاحات کا مفہوم ہی بدل جائے گا۔ کل کوئی شخص تھوڑی دیر رک کر کہے گا کہ میں نے روزہ رکھ لیا ہے کیونکہ روزہ کا لفظی معنی امساک (رکنا) ہے اور میں تو رکا ہو۔کوئی شخص کسی جگہ کا ارادہ کر کے کہے گا کہ میں نے حج کر لیا ہے کیونکہ حج کا لفظی معنی ارادہ کرنا ہے اور میں نے تو ارادہ کیا ہے۔ کوئی شخص ہاتھ منہ دھو کر کہے گا کہ میں نے زکوٰۃ ادا کر دی ہے کیونکہ زکوٰۃ کا لفظی  معنی پاکیزگی ہے اور میں تو پاک صاف ہوا ہوں۔
یہی حال ”عید“ کا ہے کہ اس کا ایک معروف اور واضح شرعی مفہوم ہے۔ محض لفظی معنی کو دیکھ کر ایک تیسری عید منانا کہاں درست ہے؟! اس لیے شرعی اصطلاح کو دیکھا جائے، محض لفظی معانی پر اعمال کی بنیاد نہ رکھی جائے۔
واللہ اعلم
دار الافتاء ،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا، پاکستان
16- ربیع الاول 1440ھ
25- نومبر 2018ء