QuestionsCategory: حج و عمرہعمرہ کے متعلق چند سوالات
Humair Ansaari asked 5 years ago

(1):        کیا عمرہ  اور طواف چند آدمیوں کی جانب سے کر سکتےہیں؟
(2):        کیا عمرہ  اور طواف زندہ آدمی کی طرف سے کر سکتےہیں؟
(3):        مرد کے لیے قصر کی مقدار کیا ہے؟

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جوابات:
۔ترتیب وار جوابات ملاحظہ ہوں:
[1، 2]:   جی ہاں! عمرہ  اور طواف چند آدمیوں کی  طرف سے کیا جا سکتا ہے۔نیز  زندہ  اور فوت شدہ دونوں کی طرف سے کیا جا سکتا ہے۔ ایصال ثواب کی بنیاد  چونکہ اس اصول پر ہے کہ انسان عمل خود کرے اور اس پر ملنے والا ثواب دوسرے کو ہدیہ کرے۔ تو ہدیہ جس طرح ایک فرد کو کیا جا سکتا ہے اسی طرح کئی افراد کو بھی کیا جا سکتا ہے اور چونکہ یہ ثواب کا ہدیہ ہے اس لیے  زندہ اور فوت شدہ دونوں کو ہو سکتا ہے۔
درج ذیل روایات اور فقہی عبارات سےیہ موقف ثابت ہے:
1:            حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذبح کرتے ہوئے فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي․
(مسند احمد: رقم الحدیث  14893)
ترجمہ: اے اللہ! یہ قربانی میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔
2:            عن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة ، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات»
(فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال: ص54، کنز العمال: ج15، ص655)
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :جو شخص قبرستان سے گزرے اور 11 مرتبہ ”قل ھو اللہ احد“ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخشے اسے بھی مردوں کی تعداد کے برابر ثواب دیاجائیگا ۔
3:            علامہ محمد امین ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ) لکھتے ہیں:
وقدمنا فی الزکوة عن التاترخانیة عن المحیط الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنين والمؤمنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شیئا․
(رد المحتار: ج2 ص 595)
ترجمہ: اور ہم کتاب الزکوة میں تاتارخانیہ کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں کہ جو شخص نفلی صدقہ کرے اس کے لیے افضل یہ ہے کہ تمام مؤمن مردوں اور عورتوں کو صدقہ کرنے کی نیت کرلے کیونکہ یہ صدقہ سب کو پہنچ جائے اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پہ  فرماتے ہیں:
من صام او صلی او تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیا جاز ویصل ثوابھا الیھم عند اھل السنة والجماعة.
(رد المحتار: ج 3 ص 180 مطلب فی القرءاۃ للمیت اھداء ثوابھا لہ)
ترجمہ: جس شخص نے روزہ رکھا یا نماز پڑھی یا صدقہ کیا اور اس کا ثواب مردوں اور زندوں میں سے کسی کو دیا تو یہ جائز ہے اور اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک ان اعمال کا ثواب ان تک پہنچتا ہے۔
[3]:        مرد کے لیے قصر کا اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ پورے سر کے بال قینچی یا مشین سے اتار لیے جائیں اور کم از کم درجہ یہ ہے کہ سر کے چوتھائی حصہ کے بال ایک پورے کے برابر کاٹ لیے جائیں۔ اگر کسی نے اس سے بھی کم بال کاٹے تو احرام نہیں کھلے گا۔  ایک بات واضح رہے کہ بعض لوگ قینچی سے محض ایک دو جگہوں کے بال کاٹ لیتے ہیں (جو سر کے چوتھائی حصہ سے ایک پورےکے برابر کاٹنے سے یقیناً کم بنتے ہیں) اور سمجھتے ہیں کہ احرام کھل گیا حالانکہ ان لوگوں کا احرام ہر گز نہیں کھلتا۔ چنانچہ اگر اس طرح بال کاٹ کرسلے ہوئے کپڑے پہن لیے تو ایک پورادن یا ایک پوری رات یا اس سے زائد وقت پہنے رہنے کی صورت میں دم لازم ہوگا، اس لیے اس میں احتیاط ضروری ہے۔
والمراد بالتقصير أن يأخذ الرجل أو المرأة من رؤوس شعر ربع الرأس مقدار الأنملة․
(البحر الرائق: ج2 ص372 کتاب الحج․ باب الاحرام)
ترجمہ:    قصر    سے مراد یہ ہے کہ مرد یا عورت سر کے چوتھائی حصہ کے بالوں کو انگلی کے پورے کے برابر کاٹ لے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
یکم اپریل 2019ء