QuestionsCategory: فقہ و اجتہاداجماع کے ذریعے اجماع کی منسوخیت؟!
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

سوال:

کیا اجماع؛ اجماع کے ذریعے منسوخ ہو سکتا ہے؟ براہِ مہربانی دلائل کے ساتھ نوازیں۔

سائل: محمد عمر

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
ایک اجماع کے منعقد ہو جانے کے بعد دوسرے اجماع کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ اجماع جب ایک بار منعقد ہو جائے تو اس کی مخالفت کرنا نا جائز ہوتا ہے چہ جائیکہ اس کے خلاف ایک نیا اجماع قائم  کی جائے۔ جب ایک اجماع کے بعد دوسرا اجماع اصولاً درست نہیں ہے تو یہ اجماعِ ثانی؛ اجماعِ اول کے لیے ناسخ بھی نہیں بن سکتا۔
 
مولانا عبد الحلیم لکھنوی (ت1285ھ) حاشیہ نور الانوار میں لکھتے ہیں :
وفائدۃ الإجماع بعد وجود السند مسقط البحث وصیر ورۃ الحکم قطعیا. (التعلیق علی نور الانوار: ص 222)
ترجمہ: جب کوئی بات سند سے پائی گئی اور اس پر اجماع ہو گیا تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ اس پر بحث نہ ہو سکے گی اور وہ حکم ( جو اجماع سے پہلے قطعی نہ تھا) اب قطعی ہوجائے گا۔
 
نیز نسخ کے لیے ضابطہ ہے کہ بغیر نص (قرآن وسنت) کے یہ ممکن نہیں۔ اجماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد ہی منعقد ہوتا ہے اور یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جس میں نصوص کا معرض وجود میں آنا ممکن نہیں ہوتا۔  جب  نص ممکن نہیں تو اجماع کے منعقد ہونے کے بعد اس کے نسخ کا احتمال بھی ممکن نہیں۔
محقق اصولیین نے کتبِ اصول میں اس بحث کو عمدہ پیرائے میں مختلف جہات سے ذکر کیا ہے۔ چند حضرات کی آراء پیش ہیں:
 
[۱]:  امام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (ت505ھ) لکھتے ہیں:
الإجماع لا يُنسخ به إذ لا نسخ بعد انقطاع الوحي.
(المستصفیٰ من علم الاصول: ج2 ص105)
ترجمہ: اجماع؛ اجماع کے ذریعے منسوخ نہیں ہو سکتا کیونکہ نزولِ وحی کا زمانہ گزر جانے کے بعد نسخ ممکن نہیں۔
 
[۲]:  علامہ بدر الدین محمد بن بہادر بن عبد اللہ الشافعی (ت794ھ) لکھتے ہیں:
وإذا لم ينعقد إلا بعد زمانه فلا يمكن نسخه بالكتاب والسنة لتعذرهما بعد وفاته ولا بإجماع آخر لأن هذا الإجماع الثاني إن كان لا عن دليل فهو خطأ وإن كان عن دليل فقد غفل عنه الإجماع الأول فكان خطأ والإجماع لا يكون خطأ فاستحال النسخ بالإجماع.
(البحر المحیط: ج4 ص128 مسئلۃ الإجماع لا یَنسخُ و لا یُنسخ بہ)
ترجمہ: جب اجماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد ہی منعقد ہوتا ہے تو کتاب و سنت کے ذریعے اس کا نسخ ممکن نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن و سنت کی نصوص کا وجود میں آنا نا ممکن ہے، اسی طرح نئے اجماع کی وجہ سے بھی یہ اجماع منسوخ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ دوسرا اجماع اگر بلا دلیل ہو گا تو یہ مبنی پر خطا ہو گا اور اگر دلیل کی بنا پر ہو گا تو گویا پہلا اجماع اس دلیل سے خالی ہونے کی وجہ سے خطا ہوا حالانکہ اجماع خطا  پر منعقد ہو ہی نہیں سکتا۔ ثابت ہوا کہ اجماع؛ اجماع کے ذریعے منسوخ نہیں ہو  سکتا۔
 
[۳]: شیخ محمد احمد مصطفیٰ احمد المعروف ابو زھرہ المصری (ت1394ھ) لکھتے ہیں:
وإذا کان الإجماع بعد عصر الإجماع الأول فإن جمہور علماء الأصول یقررون أنہ لا عبرۃ بالإجماع الثانی لأن ذلک یعد نسخا لحکم الإجماع الأول ولا نسخ بعد عصر الرسول. والحق أن الجمہور لایرون قیام إجماع بعد إجماع لأنہ مصادمۃ للإجماع الأول إذ کون الإجماع الأول حجۃ یمنع الأخذ بخلافہ فضلا عن أن یجمعوا علیٰ خلافہ.
(اصول الفقہ: ص211 بحث نسخ الاجماع)
ترجمہ: اجماعِ اول کے بعد جب (دوسرے زمانے میں) اجماع ثانی پایا جائے تو جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اس اجماع ثانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے کہ اجماعِ ثانی کا منعقد ہونا اجماعِ اول کو منسوخ کرنے کے مترادف ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد نسخ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حق اور صحیح بات یہی ہے کہ جمہور حضرات ایک اجماع کے بعد دوسرے اجماع کے قائل نہیں ہیں کیونکہ اجماعِ ثانی؛ اجماعِ اول کے متصادم ہو گا۔ جب اجماعِ اول کے حجت ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی رائے قائم کرنا جائز نہیں  تو ایک نیا اجماع قائم کرنا کہاں جائز ہو گا؟!
 
[۴]: عام فہم انداز میں اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اجماع کےلئے کسی سند یا بنیاد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بغیر کسی سند اور بنیاد کے کسی موقف کو اختیار کرنا خود ”شارع“ بننے کے مترادف ہے جبکہ تشریع (مطلق قانون سازی) کا حق تو صرف اللہ  تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ اجماع کی سند اور بنیاد دو چیزیں ہوسکتی ہیں:
۱: نص (قرآن وسنت)
۲: قیاس
اجماع ثانی پر غورکریں تو اس کی بنیاد مذکورہ دو چیزوں میں  سے ایک ضرور ہوگی۔اگر بنیاد نص ہے تو یہ باطل ہے کیونکہ اگر اجماع اول سے پہلے یہ نص موجود تھی تو پہلا اجماع اس کے خلاف کیونکر منعقد ہوا؟ حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ اجماع نص کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ اگر اجماع بظاہر نص کے خلاف نظر آ بھی رہا ہو تو بھی کسی نص کی بنا پر ہی ہوتا ہے (اور وہ نص ناسخ ہوتی ہے) نیز ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ اجماع ثانی کی یہ نص اجماع اول کے بعد معرض وجود میں آئی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نصوص کا ظہور محال ہے!!
اجماع ثانی کی بنیاد قیاس بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ قیاس کی بنیاد بھی نصوص سے مستنبط علل پر ہوتی ہے  تو جو خدشات نصوص  پر وارد ہوتے ہیں وہی قیاس پر بھی وارد ہوں گے یعنی اجماع ثانی کی بنیا د اگر علت مستنبطہ ہے تو یہ جس نص سے مستنبط ہے وہ نص اجماع اول کے وقت تھی یابعد میں وجود میں آئی؟ اگر اجماع اول کے وقت موجود تھی تو اجماع اول کے انعقاد سے یہ واضح ہو گیا کہ  اس سے مستنبط یہ علت مرجوح تھی تبھی تو اس کے خلاف پر اجماع ہوا اور مرجوح علت سبب اجماع نہیں بن سکتی (لہذا اجماع ثانی ناقابل اعتبار ٹھہرا) اور اگر یہ نص؛ اجماع ثانی کے بعد وجود میں آئی تو یہ محال ہے کما مر۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد الیاس گھمن
21- ستمبر 2018ء