QuestionsCategory: عقائدعقیدہ ثواب وعذاب قبر
عطاء اللہ asked 5 years ago

میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا ہے کہ کسی صحابی کا ثواب وعذاب قبر پہ یقین نہیں تھا کیونکہ یہ عقیدہ قرآن کے خلاف ہے اور اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں۔

مجھے چند اصحاب کے نام یاد ہیں جو اس عقیدہ کے قائل ہیں جیسے حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین۔ نیز عذاب قبر کے متعلق اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی ہے جس میں ایک عورت نے انہیں عذاب قبر سے نجات کی دعا دی تھی۔

لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ واقعات کن کتب میں ہیں اور کس باب میں ہیں اور راوی قوی ہیں یا ضعیف؟!

مہربانی فرما کر ثواب وعذاب قبر کے متعلق چند واقعات بتا دیں کتب کے باب حدیث نمبر وغیرہ  کے ساتھ تاکہ میں اسے قائل کر سکوں۔

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

الجواب:
آپ کے دوست کے اشکال کے جواب میں چند باتیں پیش ہیں:
[1]:        ان کا یہ کہنا کہ “کسی صحابی کا ثواب وعذاب قبر پہ یقین نہیں تھا کیونکہ یہ عقیدہ قرآن کے خلاف ہے” بالکل غلط ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ثواب و عذاب قبر کے قائل تھے (جیسا کہ آگے ہم بیان کریں) اور یہ عقیدہ قرآن مجید کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ دو آیات ملاحظہ ہوں:
پہلی آیت:
اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾
(سورۃ ابراہیم: 27)
ترجمہ:  جو لوگ ایمان لائے ہیں اللہ ان کو اس مضبوط بات (یعنی کلمہ ایمان)  کے ذریعے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت “يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ” کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو) اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد صلى الله علیہ وسلم ہیں۔ (رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا) اللہ تعالیٰ کے فرمان “يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ” کا یہی مطلب ہے (یعنی اس آیت میں ثابت قدمی سے  مراد قبر میں  سوالات کے جوابات دینے میں ثابت قدمی  مراد ہے)
(صحیح مسلم: باب عرض مقعد المیت من الجنۃاو النار علیہ الخ رقم الحدیث 2871)
تو اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثواب و عذاب قبر کی دلیل فرمایا ہے۔

دوسری آیت:
اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے:
﴿أَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ  أَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
(المؤمن:46)
ترجمہ: آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح  وشام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی ( اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون  کے لوگوں کو سخت عذاب میں داخل کردو۔
جہنم کی آگ میں داخل ہونے سے پہلے صبح شام آگ پر پیش کیا جانا دلیل ہے کہ فرعونیوں کو عذاب ہو رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وہ اب قبر میں ہی پڑے ہیں تو ثابت ہوا کہ انہیں قبر ہی میں عذاب ہو رہا ہے۔ مشہور مفسر قرآن حافظ عماد الدین اسماعیل بن خطیب بن کثیر دمشقی شافعی (ت774ھ) اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور، وهي قوله: { النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا } .
(تفسیر ابن کثیر: ج7 ص146)
ترجمہ: یہ آیت   “النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا” اہل السنت کے اس موقف کی بہت بڑی دلیل ہے کہ قبروں میں عذاب برزخی ہو رہا ہے۔

[2]:        ان صاحب کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس عقیدہ پر روایات ضعیف ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
حدیث ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی۔ اس نے عذاب قبر کاتذکرہ کیا اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے کہنے لگی: اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ہاں عذاب قبر ہو تا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ جب بھی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو عذاب قبر سے پناہ مانگی۔
(صحیح البخاری: باب ماجاء فی عذاب القبر رقم الحدیث 1372)
حدیث حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے پناہ مانگتے تھے، چنانچہ فرماتے تھے: اے اللہ! میں بزدلی، بخل، بری عمر، سینے کے فتنے اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
(صحیح ابن حبان: ج3 ص300 رقم الحدیث 1024)

اس روایت کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے قریب سے گذرے۔ آپ نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے  اور ان کو کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، بلکہ ایک کو تو اس لئے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ چغلی کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے کھجو ر کی ایک تر ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑےکئے، ان دو ٹکڑوں میں سے ہر ایک کی قبرپر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا، پھر ارشاد فرمایا : جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔
(صحیح البخاری: باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول رقم الحدیث 1378)
حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ:
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج غروب ہونے کے بعد نکلے۔ آپ نے ایک آواز سنی تو فرمایا: یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو تا ہے ۔
(صحیح البخاری: باب التعوذ من عذاب القبر  رقم الحدیث 1375)
حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگتے ہوئے یوں  فرمایا کہتے تھے:” اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ” (ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر ، عذاب جہنم ، زندگی اورموت کے فتنے اور دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں)
(صحیح البخاری: باب التعوذ من عذاب القبر رقم الحدیث 1377)
حدیث حضرت زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی سواری  پر سوار ہوکر  نبی نجار کے باغ میں جارہے تھے  اور ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ سواری بدک گئی، قریب تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچے گرادے۔ وہاں اس جگہ دیکھا کہ چھ، پا نچ یا چار قبریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی ان قبر والوں کو پہچانتا ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا: جی ہاں! میں ان قبر والوں کو جانتا ہوں۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کب مرے ہیں؟ اس آدمی نے عرض کیا: یہ لوگ زمانہ  شرک میں مرے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کو ان قبروں میں عذاب ہورہاہے، کاش کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردوں کودفن کرنا چھوڑ دوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنادے جیسے میں سن رہا ہو۔
(صحیح مسلم: باب عرض مقعد المیت من الجنۃاو النار علیہ الخ رقم الحدیث 2867)

دار الافتاء،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
27 جنوری 2019ء