QuestionsCategory: عقائدرؤیت باری تعالیٰ
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

1۔ اس حدیث کا کیا جواب ہو گا؟

”قالت من حدثک ان محمدا صلی اللہ علیہ و سلم رای ربہ فقد کذب و ھو یقول {لا تدرکہ الابصار}“

جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

محمد معصوم

2۔ كيا فرماتے ہىں مفتىان کرام کہ کىا حضور نبى اکرم نے الله کو سر کى انکھوں سے دىکھا؟ اور’’لا تدرك لابصار‘‘ كا معني اور مراد كيا هے….. مزىدحضرت عائشہ صدىقہ کی روايت ’’بخارى شرىف‘‘’’ من زعم ان محمدا ًراي ربه فقد اعظم الكذب علي الله‘‘ كا مطلب كيا ہے۔

سيد اظہر اقبال سرينگر مقبوضہ كشمير

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا کی اس روایت کے جواب سے قبل رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں راجح موقف اور اس پر دلائل ملاحظہ کیے جائیں۔ جمہور حضرات کا موقف یہ ہے کہ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ رب ا لعزت کا دیدار کیا ہے، اس پر دلائل یہ ہیں؛

دلیل نمبر1:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ•
الخصائص الکبریٰ: ج1ص268
میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

تحقیق سند:

1: علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: اس روایت کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔
مجمع الزوائد: ج1 ص250
2: حافظ زين الدين عبد الرؤوف المناوي فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔
التيسير بشرح الجامع الصغير: ج2 ص49
3: علامہ سیوطی فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔
الخصائص الکبریٰ: ج1ص268
4: محمد بن يوسف الصالحي الشامي فرماتے ہیں: اسنادہ صحیح.
سبل الهدى والرشاد: ج3 ص63
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ عبد اﷲ بن حارث کی حضرت ابن عباس اور ابن کعب سے ملاقات ہوئی:
فقال ابن عباس أما نحن بنو هاشم فنقول اِن محمدا رأی ربه مرتين ثم قال ابن عباس أتعجبون أن الخُلّة تکون لابراهيم والکلام لموسی والرؤية لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم وعليهم أجمعين قال فکبر کعب حتی جاوبته الجبال.
قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم بنی ہاشم تو کہتے ہیں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ہے، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ دوستی (خلت) ابراہیم علیہ السلام کے لئے کلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے اور دیدارِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ثابت ہے۔ اس پر حضرت کعب نے اﷲ اکبر کہا یہاں تک کہ پہاڑ گونج اٹھے۔

دلیل نمبر2:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَرَأَيْتُ النُّوْرَ الْأَعْظَمَ•
الخصائص الکبریٰ: ج1ص262
میں نے نور اعظم دیکھا ہے۔

دلیل نمبر3:

امام عبدالرزاق نے روایت بیان کی ہے:
عن المبارك بن فضالة ، قال : « كان الحسن يحلف بالله ثلاثة لقد رأى محمد ربه ».
تفسیر عبد الرزاق: ج3 ص252
حضرت حسن بصری تین مرتبہ اﷲ کی قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

دلیل نمبر4:

وحكى ابن إسحاق أن مروان سأل أبا هريرة : هل رأى محمد ربه ؟ فقال نعم.
الجامع لاحکام القرآن: ج7 ص56
مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا : ”ہاں‘‘

دلیل نمبر5:

حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
أنا أقول بحديث ابن عباس : بعينه رآه رآه! حتى انقطع نفسه ، يعني نفس أحمد.
الجامع لاحکام القرآن: ج7 ص56
”میں حدیث ابن عباس سے استدلال کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے اﷲ کو دیکھا۔ دیکھا“ یہاں تک کہ امام احمد بن حنبل کا سانس بند ہو گیا۔

دلیل نمبر6:

علامہ قرطی لکھتے ہیں:
وإلى هذا ذهب الشيخ أبو الحسن الأشعري وجماعة من أصحابه أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى الله ببصره وعيني رأسه. وقال أنس وابن عباس وعكرمة والربيع والحسن.
الجامع لاحکام القرآن: ج7 ص56
یہی امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے۔ یہی حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، عکرمہ، ربیع اور حسن کا مذہب ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا پسِ منظر اور صحیح مطلب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت یہ ہے:
عن مسروق قال كنت متكئا عند عائشة فقالت يا أبا عائشة ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على الله الفرية قلت ما هن قالت من زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية… أو لم تسمع أن الله يقول ! < لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير > !
صحیح مسلم: باب معنى قول الله عز وجل ! ’’ولقد رآه نزلة أخرى ‘‘ ! وهل رأى النبي صلى الله عليه وسلم ربه ليلة الإسراء
پہلی بات… اس روایت میں غور کیا جائے تو وعاضح ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے موقف پر حدیث مرفوع پیش نہیں کی بلکہ آیت ”لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ“ کو پیش کیا ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں بلکہ وہ آنکھوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس لیے اس سے پہلے تو اس آیت کی تشریح و توضیح پیشِ خدمت ہے:
اس آیت میں ”ادراک“ کی نفی ہے، ”رؤیت“ کی نفی نہیں ہے۔ ادراک کی نفی سے رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی۔ علامہ رازی لکھتے ہیں:
المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اﷲ تعالی نفی الرؤية عن اﷲ تعالی.
التفسير الکبير، 13: 104
ترجمہ: دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا، ایک جنس، جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اﷲ کے ادراک کی نفی سے اﷲ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔
نیز اس آیت کا معنی کرتے ہوئے امام رزای لکھتے ہیں:
معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار.
ترجمہ: آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔
فخر الدين رازی ، التفسير الکبير، 13: 103
یہی وجہ ہے کہ اللہ کا ادراک تو نہیں ہو سکتا البتہ رؤیت ہو سکتی ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں:
الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة.
’’ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جاسکتی ہے۔ اﷲ کا دیکھنا ثابت ہے‘‘۔
الجامع لأحکام القران، 7: 54
اسی لیے حدیث میں رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات آیا ہے۔ جامع الترمذی میں ہے:
عن جرير بن عبد الله البجلي قال : كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه و سلم فنظر إلى القمر ليلة البدر فقال إنكم ستعرضون على ربكم فترونه كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته.
جامع الترمذی: باب ما جاء في رؤية الرب تبارك وتعالى
خلاصہ: یہاں ”ادراک“ کی نفی ہے اور ہمارا موقف ”رؤیت“ کو ثابت کرنا ہے، لہذا آیت ہمارے موقف کے منافی نہیں۔
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ تمام آنکھیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں یا یہ کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور ظاہر ہے کہ دیکھنا اور ہے، احاطہ کرنا اور ہے۔ دونوں میں منافات نہیں۔مزید یہ کہ جب دو صحابہ تفسیر القرآن میں اختلاف کریں تو اس آیت سے مستنبط قول بالاتفاق حجت نہیں ہوتا بلکہ اس مستنبط قول کے علاوہ دیگر قرآئن سے معنی متعین کیا جائے گا۔ چنانچہ علامہ نووی فرماتے ہیں:
لم تنف عائشة وقوع الرؤية بحديث مرفوع ولو كان معها لذكرته وإنما اعتمدت الاستنباط على ما ذكرته من ظاهر الآية وقد خالفها غيرها من الصحابة والصحابي إذا قال قولا وخالفه غيره منهم لم يكن ذلك القول حجة اتفاقا والمراد بالإدراك في الآية الإحاطة وذلك لا ينافي الرؤية.
فتح الباری: ج8 ص607
اور قرائن سے معنی ماقبل میں پیش کر دیا گیا ہے کہ دیکھنا اور ہے، احاطہ کرنا اور ہے۔
دوسری بات… ماقبل کی تشریح کے مطابق دونوں اقوال میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں دیکھنے سے ”بغیر احاطہ کیے دیکھنا“ مراد ہو اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں نفی سے مقصود ”احاطہ کرتے ہوئے دیکھنے“ کی نفی ہو
کتبہ: مفتی شبیر احمد حنفی